| مشکل بڑی تھی دشتِ محبت کی سَیر بھی |
| اکڑے تھے اس سفر میں کئی بار پَیر بھی |
| تجھ سے کسی بھی ربط کی خواہش نہیں رہی |
| جب دوستانہ ختم تو پھر ختم بَیر بھی |
| ہر بار ایک رخ نیا آتا ہے سامنے |
| وہ جتنا آشنا لگا اتنا ہی غَیر بھی |
| اچھا ہے اس نے دکھ سے کنارہ کئے رکھا |
| اچھے سے کاٹی عمر ہمارے بغیر بھی |
| میری کسی بھی شب کو نہیں کر سکا بخیر |
| مدت کے بعد بھیجا گیا شب بخیر بھی |
| دونوں ہی ایک دوسرے کی ضد ہیں اور تم |
| اک ساتھ مانگتے ہو محبت بھی خَیر بھی |
معلومات