| کیا بگاڑا تیرا ہم نے، اپنا ہی نقصان کیا |
| پیار کیا نا گویا ہم نے، موت کا سامان کیا |
| دیکھا ماضی اپنے میں، کچھ حال پے بھی دھیان کیا |
| ایک جاں بچی ہے باقی، ورنہ سب قربان کیا |
| تیرے تہِ دام آیا، تو نے بھی انصاف کیا |
| تشنہ لب کو جاں بلب، اور جاں بلب بے جان کیا |
| ڈرتے رُسوائی سے تھے ہم، غم نہ ہلکا کرتے تھے |
| درد جو تو نے دیا اپنی اُسے پہچان کیا |
| پیروی میں تیری رہتا، تھا ہواؤں میں مگر |
| آستاں تھا میرا وہ مل کر، اسے بیبان کیا |
| صرف رہتا باقی یہ تھا، مانتے تم کو خُدا |
| سَجدہ کِیا کیا رب کو میں نے، گویا اک احسان کیا |
| جتنا کھویا تھا میں نے، اتنا نہیں پایا مگر |
| مِؔہر ہاں! عُشاق میں تو عشق کو زیشان کیا |
| -----------***---------- |
معلومات