| بڑی مصروف ہے دنیا |
| کسی سے مل نہیں پاتے |
| کوئی ہم سے نہیں ملتا |
| کہیں پر ہم نہیں جاتے |
| نگاہیں کھوجتی ہیں پر |
| کئی چہرے ہوئے اوجھل |
| تھکن سے خم ہوئی گردن |
| مسافت سے قدم بوجھل |
| بڑا پر کیف بچپن تھا |
| بہت سے دوست تھے چنچل |
| کوئی نا کوئی رہتا تھا |
| ہمارے ساتھ میں ہر پل |
| کہیں بہنیں کہیں بہنوں |
| کے بچے کھلکھلاتے تھے |
| کہیں پر سامنا ہوتا |
| تو جیسے جھوم جاتے تھے |
| کبھی والد کے گردا گرد |
| کئی محفل جماتے تھے |
| کوئی پھر سر دباتا تھا |
| کوئی پاؤں دباتے تھے |
| کبھی امی کے بستر میں |
| دبک کر لیٹ جاتے تھے |
| کئی گھنٹے گزر جاتے |
| جو ہم لکھ کر سناتے تھے |
| کبھی پھر بات اور بے بات |
| پہ ہنستے اور ہنساتے تھے |
| کبھی لڑتے جھگڑتے تھے |
| کبھی پھر مان جاتے تھے |
| شکست و ریخت میں الجھے |
| مناظر کھو گئے سارے |
| اچھلتا ہے دلِ بسمل |
| عجب سے خوف کے مارے |
| جہاں کل پھول گرتے تھے |
| وہاں اب دھول اڑتی ہے |
| کہانی ہی تو ہے صاحب |
| بہت سے موڑ مڑتی ہے |
| کبھی خوش باش رہتے تھے |
| دکھاوا رہ گیا باقی |
| جو کل جامی تھا جھرمٹ میں |
| وہ تنہا رہ گیا باقی |
معلومات