لمحے ماضی سے بلائے جائیں
ناز پھر ان کے اٹھائے جائیں
چاک پر پھر سے رکھا جائے دل
یار کے نقش بنائے جائیں
اس سے پہلے کہ گذر جائے دن
رنگ تتلی کے چرائے جائیں
نام بدنام نہ ہو عاشق کا
زخم سینوں کے دکھائے جائیں
لوٹ کے آئے کرن سورج کی
پردے زنداں سے ہٹائے جائیں
موت کی راہ نہ دیکھے دلبر
یوں مسافر نہ ستائے جائیں
عشق پر زور نہیں ، چلتے بس
اب سبق اور نہ پڑھائے جائیں
ہو ختم جس سے سفر تاروں کا
چاند وہ شب میں سجائے جائیں
پیار کی خوشبو جہاں پر مہکے
شہر شاہد ! وہ بسائے جائیں

15