جب سے ان کو خواب سناتے دیکھا ہے |
تعبیروں کو ناز اٹھاتے دیکھا ہے |
کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آیا |
اس کو گھاٹ سے پانی لاتے دیکھا ہے |
جانے کیا حالت ہوگی اس سے مل کر |
جس کو خواب میں آتے جاتے دیکھا ہے |
تم کو بھاتا ہے گل کھلنے کا منظر |
تم نے بھی اس کو شرماتے دیکھا ہے |
ہم نے ان کے ہونٹ سہے ہیں قربت میں |
ہم نے پھول کو آگ لگاتے دیکھا ہے |
جیسے مفلس بچہ دیکھے برفی کو |
میں نے اس کو یوں للچاتے دیکھا ہے |
حقارت سے دیکھ رہے ہو دہقاں کو |
جُون میں اس کو ہل چلاتے دیکھا ہے؟ |
جس نے جسم پہ مرضی مانگی ہے اس کو |
کئی مردوں کے دل بہلاتے دیکھا ہے |
رب جانے ہے کیسی خلوت آسی ؔ کی |
جلوت میں تو ہنستے گاتے دیکھا ہے |
معلومات