محبت اگر مجھ کو تم سے ہوئی ہے
تو سمجھو خدا کی عنایت ہوئی ہے
تمہیں مل گئی ہے نصیبوں سے لڑ کر
تو سمجھو دعاؤں کی برکت ہوئی ہے
حجابوں میں رہ کر تمہیں پا گئی ہوں
تو سمجھو یہی تو کرامت ہوئی ہے
کبھی پاس آنا کبھی دور جانا
یہی عشق کی کچھ سیاست ہوئی ہے
نظر نے جو دیکھا، وہ دل میں اُتارا
یہی عشق کی بس روایت ہوئی ہے
وفا کے سفر میں جو پائی تھکن ہے
تو لگتا ہے قربت سکونت ہوئی ہے
تمہارے تبسّم پہ واری یہ دنیا
مرے دل پہ جب سے حکومت ہوئی ہے
تمہیں سوچ کر جو بہکنے لگی ہوں
تو سمجھو قیامت بپا ہوگئی ہے
نہ ٹوٹی ہے اُلفت، نہ بدلی حقیقت
ترے پیار کی یہ عبارت ہوئی ہے
یہ افشینؔ کی بات سچ مان لینا
تمہاری ہی چاہت، سعادت ہوئی ہے

5