| دست رس میں نہ ہوں حالات تو پھر کیا کیجئے |
| وقت دکھلائے کرشمات تو پھر کیا کیجئے |
| صاحِبِ وقت ہیں جو ان کی طبیعت چاہے |
| ظلم کو کہہ دیں مکافات تو پھر کیا کیجئے |
| ہم نے رو لیں ہیں گہر اشک ندامت کے بہت |
| ہوں نہ منظور یہ سوغات تو پھر کیا کیجیے |
| تیرگئ غم ہستی کا تسلسل ٹوٹے |
| چلیے یہ کٹ بھی گئی رات تو پھر کیا کیجئے |
| زندہ رہنے کے لیے شرط تحمل ٹھہری |
| اس پہ قائل نہ ہوئی ذات تو پھر کیا کیجئے |
| زیست کے لمحوں رکھا ہے سجا کر شاعر |
| مانگ لے کوئی حسابات تو پھر کیا کیجئے |
معلومات