زمیں پراک عجب نقشہ ہے دریا
کہیں سمٹا کہیں پھیلا ہے دریا
جہلم ہو سندھ ہو راوی کہ ستلج
کوئی بھی نام ہو دریا ہے دریا
کسی نے یاد ماضی کی دلادی
جو سویا تھا وہ جاگ اٹھا ہے دریا
بگولے ناچتے ہیں دشت جاں میں
مری آنکھوں کا تو سوکھا ہے دریا
زمیں کوگر چہ زرخیزی عطا کی
سمندر کا بھی ان داتا ہے دریا
لو بہہ چلا ہے اب تیرے فغاں پر
بشر کا حکم بھی سنتا ہے دریا

36