| اس کی آنکھیں ، اس کے گیسو ، اس کا چہرہ لکھ ڈالا |
| میں نے ان اشعار کی صورت اس کا حلیہ لکھ ڈالا |
| عارض کو تشبیہ نہیں دی چاند ستاروں سے لیکن |
| مہکے نازک ہونٹوں کو اک تازہ غنچہ لکھ ڈالا |
| لفظوں کا جامہ پہنایا اس کے حسن کے سورج کو |
| یعنی اس کو جیسا دیکھا تھا بس ویسا لکھ ڈالا |
| ہو جاتی ہے مخموری میں چھوٹی موٹی غلطی بھی |
| جھیل سی اس کی آنکھوں کو ہے بہتا چشمہ لکھ ڈالا |
| لوحِ دل پر لکھا قصہ نقل کیا ہے کاغذ پر |
| اور پھر پیار کی مستی میں جو جی میں آیا لکھ ڈالا |
| شاخِ گل ہم نے لکھ ڈالا کمر لچکتی دیکھی تو |
| چال کو اس کی حشر جگاتا کوئی فتنہ لکھ ڈالا |
| سوچ رہا تھا رات میں اس کو ، دیکھ رہا تھا چندا کو |
| نام جہاں لکھنا تھا اس کا میں نے چندا لکھ ڈالا |
| اب وہ جانے قاصد کا کیا حال کریں گے غصے میں |
| دل کی باتوں میں آ کر ہے ایک سندیسہ لکھ ڈالا |
| لکھ ڈالا ہے میں نے آسیؔ جو کچھ میرے دل میں تھا |
| اور اب بیٹھا سوچ رہا ہوں میں نے یہ کیا لکھ ڈالا |
معلومات