| مشعَلِ عشقِ مُرشِد جَلا کر، اپنا تاریک دل جگمگاؤں |
| چل کہ اس شمع کی روشنی میں، راستہ میں ہدایت کا پاؤں |
| میٹھے مُرشِد کا کردار عالی، اُن کی ساری ادائیں نِرالی |
| اُن کا عِشقِ نبی بھی مِثالی، اُن کا خوفِ خُدا کیا بتاؤں |
| پُھو ٹتی نُور کی رُخ سے کِرنیں, جن کے دیدار کو سارے ترسیں |
| دیکھ کر اُن کی خم دار زُلفیں، پیچ و خم زندگی کے بُھلاؤں |
| اُن کی مُسکان مرہم غموں کی، ہے دَوا اِس میں میرے دُکھوں کی |
| وہ مجھے دیکھ کر مُسکُرا دیں، میں اُنھیں دیکھ کر مُسکُراؤں |
| ڈال دیں دِل پہ وہ جو نِگاہیں، دُور ہُوں اِس کی ساری بَلائیں |
| مَعرِفَت حق کی ایسی میں پاؤں، ڈگمگائیں نہ پھر میرے پاؤں |
| نرم لہجہ ہے شِیرِیں مَقالی، اُن کے لفظوں میں فیضِ بِلالی |
| اُن کی تلقین مِثلِ غزالی، اُن کے نغمے نہ کیوں گُنگُناؤں |
| خامہ اُن کا تو کلکِ رَضا ہے، ساتھ میں فیضِ غوثُ الوَریٰ ہے |
| اور کَرَم سَروَرِ انبیاء ہے، اِس کَرم پر نہ کیوں صدقے جاؤں |
| باغِ مُرشِد میں بادِ بہاری، کر دے مولا تُو ہر آن جاری |
| آئے پت جھڑ کی ہر گز نہ باری، دھوپ میٹھی گھنی سی ہو چھاؤں |
| حَسرَتیں دل کی مُرشِد مِٹا دو، چل مدینہ کا مُژدہ سُنا دو |
| جو مِلے یہ خبر تُم کو زیرکؔ، میں خوشی سے نہ پُھولے سماؤں |
معلومات