| احساں سے بری کر دو، کڑوا سچ نگلنے دو |
| رکھ لو تم خدا اپنا، میرا مجھ کو گھڑنے دو |
| پُوجا تھا روایت کو، کُہنہ تر حِکایت کو |
| عِلم تھا وہ بوسیدہ، خستہ اور نادیدہ |
| آبِ خِضر لاؤ اب، قوم کو پِلاؤ اب |
| گہری فکر ہے میری، اِس کا رنگ چڑھنے دو |
| چڑھ جا میرے شانوں پر، ٹھوس پائیدانوں پر |
| دیکھ آبشاروں کو، کاسنی بہاروں کو |
| چوٹی کرنی سر ہے وہ، پالے میں چھپی ہے جو |
| دھوپ تو نکلنے دو، برف کو پگھلنے دو |
| بہتری ہو تم سب کی، اور تمہاری نسلوں کی |
| خود کو روکتے تھے گو، بچوں کو تو لینے دو |
| لا زوال صنعت ہو، با کمال جرات ہو |
| توشہ لے لو میرا تم، بھوک میری رہنے دو |
| پکڑو آسماں کو تم، وقت اور مکاں کو تم |
| مجھ کو دیکھنا ہے وہ، دوسری طرف ہے جو |
| مجھ کو جینے دو مجھ میں، منفرد حقیقت میں |
| عُنفواں مُقفل تھا، باقی پل تو جینے دو |
| رکھ لو تم خدا اپنا، میرا مجھ کو گھڑنے دو |
| ----------٭٭٭---------- |
معلومات