| مایوس ہو کے بیٹھے ہیں تاریک رات میں |
| اور اشک چھلکے پڑتے ہیں اب بات بات میں |
| کردیں نہ ہم پہ ٹھنڈی ہوائیں بھی کوئی وار |
| ٹائر جلا کے بیٹھے ہیں برفیلی رات میں |
| اے دل تو کیوں پریشاں ہے جب رب ہے ساتھ میں |
| وہ دیکھ لے گا سب کو جو دشمن ہیں گھات میں |
| مایوسیوں کو چھوڑ کر امید کس کے باندھ |
| پائے گا پھر جو چاہے تو وہ رب کی ذات میں |
| برباد کر کے کہتا ہے وہ ایک تم نہیں |
| ہیں درمیان ہم بھی حیات و ممات میں |
| لکھنے اگر تو بیٹھ گئے داستان غم |
| باقی رہے گی پھر نہ سیاہی دوات میں |
| وہ ایک دن یقین ہے پچتائے گا ذیشان |
| ہے انتظار آتا ہے پھر کب وہ مات میں |
معلومات