| کٹی ہو جب غلامی میں تو کیا احرار کی باتیں |
| جھکا کر جب کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں |
| وہ “پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں |
| “میں پہلے” ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں |
| ہمارے گھر کو لوٹا ہے ہمارے گھر کے لوگوں نے |
| جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں |
| ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند |
| نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں |
| یہاں قانون نابینا، یہاں منصف ہیں ظالم لوگ |
| یہاں پر کون سُنتا ہے کسی نادار کی باتیں |
| کسی بھی پار کیا اترو گے، جو کرتے رہو گے تم |
| کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں |
| توجہ دے تُو اے مسلم، کبھی تو حال پر اپنے |
| نہ ماضی یاد کر کے رو ، نہ کر آزار کی باتیں |
| تمہاری زندگی اب ہو گئی ہے ساغر و مینا |
| تمہیں جچتیں نہیں اب گھوڑے اور تلوار کی باتیں |
| یہی مقبول بہتر ہے بدل دوں میں بھی اپنی سوچ |
| جہاں میں گونجتی ہیں اب نئے افکار کی باتیں |
معلومات