کیا خوب منظروں میں، کیا بستیوں میں دیکھا
ہر سانس کے تعلق کو، ان بندشوں میں دیکھا
تجھ کو کہاں تلاشیں، کس کو پکار بیٹھیں
تجھے تو ہر لمحہ، ہر اِن قدموں میں دیکھا
ظاہر تو وہ نہیں ہے، مخفی بھی تو نہیں ہے
جب آنکھ بند کی، تو ان خوابوں میں دیکھا
جب دل سے کوئی تشنہ، اُٹھنے لگا سوالی
تیرے کرم کو ہم نے، ہر بارشوں میں دیکھا
ہر پھول کی مہک میں، ہر تتلی کے پر میں
تیری ہی رنگتوں کو، ان روشنیوں میں دیکھا
جنگل ہو یا کہ صحرا، دریا ہو یا کہ ساحل
تجھ کو ہی ہر جگہ، اِن نشانیوں میں دیکھا
کہتے ہیں کچھ منکر، ہے ہی نہیں کوئی جو
ہم نے تو ہر گھڑی، تیری جنبشوں میں دیکھا
کہتا ہے یہ ندیمؔ ہر لمحے کی سچی
سب کچھ ہے تو، تجھے ان رنگینیوں میں دیکھا

0
3