| حیات تیری طلب میں جاناں نجانے کب سے بھٹک رہی تھی |
| دیار ہستی میں روح میری تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی |
| پھر ایک دن تو یوں روبرو تھی کہ چاندنی سی دمک رہی تھی |
| شباب تیرا مچل رہا تھا ، تو کلیوں جیسی چٹک رہی تھی |
| نشیلی آنکھوں کے ساغروں سے شرابی مستی چھلک رہی تھی |
| قصور میرا نہیں تھا ہرگز نظر جو میری بہک رہی تھی |
| دراز زلفوں کی کالی ناگن کمر پہ تیری مٹک رہی تھی |
| نگاہ میری ترے سراپا کے پیچ و خم میں بھٹک رہی تھی |
| چکتی آنکھوں کے آئینوں سے مری محبت جھلک رہی تھی |
| جھکائے پلکیں تو لفظ چاہت کے کہتے کہتے جھجک رہی تھی |
| بسنتی آنچل سفید ہاتھوں کی انگلیوں میں الجھ رہا تھا |
| دہائے دانتوں میں لب گلابی ، مجھے محبت سے تک رہی تھی |
| بڑھایا اپنا جو ہاتھ میں نے تو مجھ سے آکر لپٹ گئی تھی |
| ہماری سانسوں میں خوشبوئے وصل دھیرے دھیرے مہک رہی تھی |
| وصال شب کے گداز لمحوں میں ایک دوجے کی قربتوں سے |
| سحر تلک پھر ہماری آنکھوں میں سات رنگی دھنک رہی تھی |
| سحاب بھیگا حسین منظر مری نگاہوں میں منجمد ہے |
| نہا کے بارش میں جب وہ بالوں سے پانیوں کو جھٹک رہی تھی |
معلومات