| آرزو یہ بھی تھی کے مجھے تنہائی لے ڈوبے |
| رو جاؤں اتنا کہ مجھے رسوائی لے ڈوبے |
| میں کبھی بیٹھ کہ پھر اپنے مرہم سے کھیلوں |
| اور مجھے اپنے زخموں کی گہرائی لے ڈوبے |
| تو مجھے دیکھے اور میں اک قرضے میں آجاؤں |
| اور مجھے اس قرضے کی بھر پائی لے ڈوبے |
| میں تنہا ہو کر اپنے پیچھے دیکھوں اور |
| میرے خلاف اپنوں کی یک جائی لے ڈوبے |
| پھر تو پوچھ لے مجھ سے حال یہ میرے دل کا |
| اور مجھے آواز یہ گھبرائی لے ڈوبے |
| سب سے جیت کے آخر میں تجھ سے جاؤں ہار |
| اور مجھے یہ آخری پسپائی لے ڈوبے |
| میں مایوس ہو کر آخر کو یوں رونا چاہوں |
| پر مجھے اپنی ہی آنکھوں کی پتھرائی لے ڈوبے |
معلومات