۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔
چشمِ گریاں سے کہو شام کے منظر دیکھے
میری پلکوں پہ اُترتے ہوئے گوہر دیکھے
چشمِ تر دیکھ کے شاید اُسے احساس تو ہو
کس طرح جلتے ہیں دیوار کے اندر دیکھے
خاک ہوجائیں گے ہم ضبط کے شعلوں میں مگر
چشمِ بد مست یہ تکرار نہ یکسر دیکھے
زہر کی بوند میں شیرینیِ اُلفت کا کمال
دل کو جب چیر کے نکلے تو وہ ششدر دیکھے
عشق میں ضبط کا مفہوم سمجھنا ہو اگر
میرے جذبوں کا وہ طوفان سمندر دیکھے
آتشِ عشق جو بھڑکے تو شرر کر جائے
خاک سے نور نکل آئے تو محشر دیکھے
میں نے صحرا میں چراغوں کی زباں سیکھی ہے
وہ جو بزمِ شبِ غم ہے، مرا جوہر دیکھے
عرش سے فرش تلک پھیل گئی شامِ فراق
شامِ یلدا کی طرح صبر کا محور دیکھے
عشق کا سوز ہے مانندِ شرر خاکستر
خاک ہو کر بھی جو روشن ہو وہ عنبر دیکھے
آہِ عشاق میں تاثیر ہے مثلِ غالب
چاکِ دل ہو تو وہاں جلوہِ خنجر دیکھے
میں نے اشکوں سے لکھی تھی کبھی تحریرِ وفا
کاش وہ حرف کی خوشبو کو میسر دیکھے
کربِ ہجراں میں جو آشفتہ سر و دل گرداب
یادِ جاناں میں جو ڈوبے وہ شناور دیکھے
میں نے پلکوں پہ سجائے تھے دُعا کے موتی
کاش وہ آ کے کبھی دیدۂ اختر دیکھے
منزلیں اُس کو بلاتی ہیں مگر وہ شائم ؔ
ریگِ طوفان میں اُلجھا ہے، مقدر دیکھے
شائم

25