وہی ہے دل میں مگر جب ملاقات کیجیے
آئے نہ لب پہ کوئی بھی بات، کیا کیجیے
یہ عمر بھر کی تھکن، یہ اداسیوں کا سفر
جب ملیں سکون کی اک رات، کیا کیجیے
تمہارے شہر کے ہر در پہ جستجو کے سوا
نہ ہاتھ آئے کوئی سوغات، کیا کیجیے
بچھڑ کے تم سے وہ پہلی سی بات ہی نہ رہی
کہ اب تو دل نہیں کرتا کوئی بات، کیا کیجیے
جو ہو سکے تو ذرا ہاتھ رکھ کے دیکھو سہی
تمہارے ہجر میں کیا ہے حالات، کیا کیجیے
وہی سوال، وہی کشمکش، وہی ہیں جواب
ان الجھنوں کے بعد ثبات، کیا کیجیے
پھر ایک بار وہی خواب، وہی وعدے ہیں
وہی ہے غم، وہی ہے جذبات، کیا کیجیے
ملا تھا ایک لمحے کو جیسے کوئی کرشمہ ہو
پھر اس کے بعد سے وہ لمحات، کیا کیجیے
تِرے بغیر ہے کیا یہ زندگی کی شام
تِرے بغیر ہے کیا یہ رات، کیا کیجیے
اے ندیمؔ، وہ ملیں تو ملے خود کو زندگی
یقیں نہیں ہے یہ کوئی معجزات، کیا کیجیے

0
6