| تنہا جب ہجر کی تاریکی سے ڈرتا ہوگا |
| بات پھر رات وہ دیواروں سے کرتا ہوگا |
| جانے اب کس کے لیے کھڑکی وہ کھلتی ہوگی |
| جانے اب اس گلی سے کون گزرتا ہوگا |
| اور کیا ہونا تھا اسکے چلے جانے کے بعد |
| کل بھی مرتا تھا وہ سو آج بھی مرتا ہوگا |
| اتنا مشکل بھی کہاں تیرا فراق اس کے لیے |
| روز بس ریت کے مانند بکھرتا ہوگا |
| چھوڑ کے تم گئے تھے جس گلی وہ دیوانہ |
| لمحے میں اس گلی سوبار گزرتا ہوگا |
| دن بدن سیڑی مصیبت کی وہ چڑھتے چڑھتے |
| کیا یونہی زندگی کی سیڑی اترتا ہوگا؟ |
| جی ہی جی میں کئی عہد وفا کرتے کرتے |
| جی ہی جی میں وہ کئی بار مکرتا ہوگا |
| وہ جو یادوں کے سمندر میں اترتا ہوگا |
| اپنا ہی سایہ وہ تو دیکھ کے ڈرتا ہوگا |
| پھولوں سے خوشبو سلیقے سے چرا کر پہلے |
| کانٹوں پر پھر کوئی الزام بھی دھرتا ہوگا |
| آخرش خود سے بھی نفرت ہوئی ہوگی اُس کو |
| تجھ سے ملنے کی بھی امید نہ کرتا ہوگا |
| آنکھوں کے نیلے فلک سے کبھی زینہ زینہ |
| کیا کوئی چاند سا اب دل میں اترتا ہوگا |
| جانے کس دھیان میں بیٹھا ہوا ہو گا وہ شخص |
| جانے کن رنگوں سے کمرے کو وہ بھرتا ہوگا |
معلومات