میں ٹوٹ کے بھی گرا نہیں ہوں
بس چپ ہوں ابھی مرا نہیں ہوں
یہ سچ ہے بکھر گیا ہوں لیکن
میں جگ سے کبھی جکا نہیں ہوں
غم سے ہو گیا ہوں چور اب تو
پھر بھی میں ابھی تھکا نہیں ہوں
سب کچھ کھو دیا میں نے مگر یہ
اور بات ہے میں لٹا نہیں ہوں
منزل نہ رہی ملال کیوں ہو
رستے سے میں تو ہٹا نہیں ہوں
اعجاز مجھے کیا یہ کم ہے
تو کیا ہے اگر ملا نہیں ہوں
یوں لاکھ مٹانے پے تمھاری
یادوں سے ابھی مٹا نہیں ہوں
وہ عہدِ وفا کو بھول بیٹھا
ساحل میں تو بے وفا نہیں ہوں
عمر احسان ساحل

0
52