ماجرا سارا سنا بیٹھے ہیں
اشک پلکوں پہ جو آ بیٹھے ہیں
ہو کے بیگانے محبت سے ہم
آگ پانی میں لگا بیٹھے ہیں
پھول زلفوں میں سجا کے ان کے
خود کو دیوانہ بنا بیٹھے ہیں
اب چھپائیں کیا حالت دل کی
ایک ویرانہ بسا بیٹھے ہیں
سانس لینے کی نہیں فرصت بھی
کام سب کل پہ اٹھا بیٹھے ہیں
یاد جو شام ہمیں آتا تھا
ہر وہی شخص بھلا بیٹھے ہیں
بھول کے قافلے گزرے دل کے
چاند دھرتی میں دبا بیٹھے ہیں
آخری لکھ کے انہیں خط شاہد
آج سب جگ سے خفا بیٹھے ہیں

0
17