غم کی بستی سے ذات گزری ہے
بانٹتی جاں برات گزری ہے
پوچھتے ہیں خیال سوچوں سے
ڈھونڈتے کیا حیات گزری ہے
یار کے وصل کی لئے حسرت
ہاتھ سے کائنات گزری ہے
چند خوشیوں کی آرزو میں یوں
زندگی بے ثبات گزری ہے
آخری کہہ رہے ہیں دکھ کے پل
عمر گزری کہ رات گزری ہے
لپٹی شاہد سفید کپڑوں میں
موت کی واردات گزری ہے

0
40