لوگ سارے کہاں مجبور ہوا کرتے ہیں
کچھ تو دانستہ کچھ اور دور ہوا کرتے ہیں
منزلِ غم پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے
بیوفائی کے بھی دستور ہوا کرتے ہیں
جن کے سینے میں محبت کی تڑپ ہوتی ہے
ان کے چہرے بڑے پرنور ہوا کرتے ہیں
سوچ کر ہاتھ لگا اے مرے نادان طبیب
زخم چھونے سے بھی ناسور ہوا کرتے ہیں
تُو کسی اور کو دیکھے تو جلن ہوتی ہے
بے وجہ ہم کہاں رنجور ہوا کرتے ہیں
ان کے چہرے پہ قیامت کی کشش ہوتی ہے
جو تری آنکھ کے محصور ہوا کرتے ہیں

0
106