جو ملی ہے زندگی اس کا صلہ پایا گیا
دیکھ کر رنگِ جہاں لطف و مزہ پایا گیا
آج دل شاداں ہوا، روح بھی مسرور ہے
جیسے گم گشتہ کوئی اپنا پتا پایا گیا
ہر طرف پھیلی کرن، روشنی ہی روشنی
غم کے بادل چھٹ گئے، عزمِ بقا پایا گیا
یار کے کوچے میں اب رقص کناں ہے ہر گھڑی
وصل کی شب آ گئی، ہجر خفا پایا گیا
بات تو سچ ہے کہ محفل میں سکوں تھا پہلے بھی
پر تیرے آنے سے اب کیف جدا پایا گیا
جانے کس دیس سے آیا ہے خوشی کا یہ پیام
ہر نظر میں اک نیا خواب بسا پایا گیا
فکرِ فردا سے نکل، جی لے یہ لمحہ اے جاں
کیفِ موجود میں ہی راہِ صبا پایا گیا
ہے "ندیم" اب زندگی جیسے گلوں کی ہے بہار
رنج و غم مٹ سے گئے، چین بپا پایا گیا

0
2