عجب ماجرا ہے مرے راستوں کا
نہیں کوئی نام و نشاں منزلوں کا
مری تیز گامی بھی جاری ہے کب سے
ہے قائم مگر سلسلہ فاصلوں کا
وفاؤں کا اک آشیاں ہم بنائیں
چرا لو جو لمحہ کوئی فرصتوں کا
نہ بن جائیں میرا کہیں یہ مقدر
بھروسہ نہیں کوئی تنہائیوں کا
تمتع کی خاطر جلائیں گھروں کو
ہو ایسے میں کیا آسرا دوستوں کا
کبھی یہ ہنسائیں کبھی یہ رلائیں
کروں کیا میں ان سر پھرے موسموں کا
نہیں اور جی سکتے ہم اس گٹھن میں
بھرم رکھیں کب تک ترے فیصلوں کا
وہ کیا جانیں غم ہم فقیروں کا سیدؔ
خزانہ ملا ہے جنہیں عشرتوں کا

0
3