مری نجانے روح کب کی پیاسی ہے
جو آنکھوں میں تڑپتی یہ اُداسی ہے
کسی دُکھی بَلا کا سایہ ہے یہاں
جو شہرِ دل میں اتنی بدحواسی ہے
میں کُھو گیا جمالؔ خود کی کھوج میں
یہ خود کی یارو کیسی خود شناسی ہے

0
6