متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
یہ نظر تھی پہلے سے مضطرب نہ ہو اور اب یہ کرم کرے
مرے عشق کا ہے یہی سبق، کہ بہم ہو سب، نہ ستم کرے
جو کہ دل میں ہے، وہ زبان پر، نہ ریا کے بوجھ سے دم چلا
یہی طرزِ بندگی خوب ہے، جو خلوصِ جاں سے بہم کرے
نہ طلسمِ زر، نہ جلال ہے، نہ غرورِ نام و نسب رہے
جو غرورِ جاں کو مٹا سکے، وہی شخص عشق میں دم کرے
مرے سامنے جو نقاب تھا، وہی میرے دل کا حجاب تھا
مرے شیخ کو یہ خبر نہ تھی، کبھی خود کو خود سے حرم کرے
جو صدائے عشق میں گھل گئی، وہ صدائے حق تھی بجا سنی
اسی بندگی میں عروج ہے، جو خلوصِ دل سے قسم کرے
وہی مست ارشدِ باصفا، جو انا کی بیڑیاں توڑ کر
یہی ذکرِ حق کا ثواب ہے، جو نفوسِ زنگ کو کم کرے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
2