| عشق سے بیزاری ہو گئی ہے |
| گل چیں سے گھر داری ہو گئی ہے |
| دل ہے اُلجھا سود و زِیاں میں |
| فکر بھی درباری ہو گئی ہے |
| چَکی پِس رہی ہے لفظوں کی |
| کیسی یہ سرداری ہو گئی ہے؟ |
| چہروں پر عیاں ہے رقصِ مرگ |
| زیست سے غدّاری ہو گئی ہے |
| طے ہو چکی قیمت جسکی |
| جنس وہ بازاری ہو گئی ہے |
| ان کا تو ہو گیا اِستہزا |
| میری شبِ داری ہو گئی ہے |
| غنچہ دل یوں ہیں رُو برو ان کے |
| آنکھوں سے سرشاری ہو گئی ہے |
| کیوں جا نکلتی گلیاں اُسی در؟ |
| نِسیاں کی بیماری ہو گئی ہے |
| زیرِ لب ابھی مُژْدَہِ دل تھا |
| باری مری ساری ہو گئی ہے |
| شہر کہ تُند خُو مجھ سے ہُوا ہے |
| آپ سے دلداری ہو گئی ہے |
| بنتی ہے خُلد، اگر چہ صِلے میں |
| اتنی دل آزاری ہو گئی ہے |
| کیوں نہیں نُکتہ چیں پھبتی اُڑائی؟ |
| کینہ سے خُو عاری ہو گئی ہے! |
| یاد تھی انکی مِؔہر بغل گیر |
| خواب سے بیداری ہو گئی ہے |
| -------٭٭٭-------- |
معلومات