| خدا کا خوف ذرا بھی نہیں تجھے جاناں |
| کہ بے وجہ ہی ستاتے ہو تم مجھے جاناں |
| اگر یقیں نہیں ہوتا مری محبت کا |
| تو خود ہی چیر کے دل ، دیکھ لیجئے جاناں |
| تُو خود ہی چھوڑ دے گا یہ ستم گری جاناں |
| کہ دیکھ لے مری دیوانگی تُو ، اے جاناں |
| یہ دیکھ جا رہا ہے کوئی تیری چاہت میں |
| خدا کے واسطے کچھ تو ترس کھا لے جاناں |
| غرورِ ناز و ادا ہے بڑا تجھے خود پر |
| جا ، اب منانے نہیں آئیں گے تجھے جاناں |
| (زبیرعلی) |
معلومات