وعدے پہ وعدہ دلبر ہر بار کر گیا
دو بول میٹھے دل پر پھر مار کر گیا
جس پر کیا بھروسہ راہِ حیات میں
کچھ دور ساتھ چل کے انکار کر گیا
اپنی اذیتوں کا، کرتا بھی ذکر کیا
احساس کم تری کو ،خود دار کر گیا
وعدہ اک اور وعدہ ،وعدے پہ وعدہ کیوں
اب تو ترا یہ وعدہ، حد پار کر گیا
مشکل سے نیند آئی، آیا کوئی مگر
خوابوں میں ڈوبے رہنا دشوار کر گیا

0
13