| آسماں بھی پست ہے اب ہم جہاں تک آ گئے |
| مدحِ عبّاسِ علی میں ہم یہاں تک آ گئے |
| بولا رضواں کس طرح پہنچے یہاں ہم نے کہا |
| سر درِ غازی پہ رکھا اور جناں تک آ گئے |
| اپنی مادر کی خطاؤں کاپتہ دیتے ہوئے |
| بغضِ حیدر میں منافق اب اذاں تک آگئے |
| امن کی ٹھنڈی ہوائیں آ رہی تھیں ہند سے |
| اس لیے سب چھوڑ کر ہندوستاں تک آگئے |
| خلد میں صادق یہی کہتے ہوئے سب سے ملے |
| مدحِ عباسِ علی میں ہم یہاں تک آگئے |
| شدّتِ ظلمت سے جل جانے کو تھا حر کا وجود |
| وہ تو کہیے وقت رہتے پاسباں تک آ گئے |
| سب خبر ہے دل کی ان کو اب زباں سے کیا کہوں |
| پھر محبت کیا کہ جو شکوے زباں تک آگئے |
| کربلا جائے گا جو بھی بس کہے گا یہ ظہیر |
| کربلا جاکر لگا جیسے جناں تک آگئے |
معلومات