آج پھر درپیش ہے خود آگہی کا ہی سفر
پھر رہے ہیں کوچہ کوچہ قریہ قریہ در بہ در
اے خدائے شش جہت مجھ کو بھی وہ ایقان دے
جس سے ہو پیدا دعاؤں میں مری بھی کچھ اثر
کس قدر انعام ہیں مجھ پر ترے اے کردگار!
تو نے مجھ کو کر دیا ہے ایک پتھر سے گہر
اے مرے پیارے مرے محسن یہ تیرا فضل ہے
ورنہ کب ہوتا ہے پیدا خشک پیڑوں پر ثمر
شام کی دہلیز پر سر رکھ کے سورج سو گیا
رات کے آتے ہی جاگے سوچ کے سب بام و در
میں نہ کہتا تھا بلندی کی طرف کم دیکھنا
آ پڑی دستار قدموں میں گئی عزت بکھر
اس وطن کی خاک میں جو ہے شہیدوں کا لہو
رنگ لائے گا یقیناً اور پھوٹے گی سحر
لاکھ ہوں طوفاں مگر ہو جب کھویا ہی خدا
ناؤ تو منزل تلک جائے گی بے خوف و خطر
یہ متاعِ شاعری تو میرے رب کا فیض ہے
ورنہ راشد میں کہاں اور ہیں کہاں علم و ہنر

0
3