| مرے حضور کے دم سے ہی یہ بہار چلے |
| وہ نبض زندگی ہیں ان سے ہی مدار چلے |
| تمہاری یاد نے دل کو ہے بے قرار کیا |
| چلے جو قافلہِ عشق سوئے یار چلے |
| رہے گا اس کو خسارہ یقیں ہے عقبی میں |
| جو راہ ہٹ کے چلے شترِ بے مہار چلے |
| ہے پاس جتنا بھی جو کچھ ہے ان کا صدقہ ہے |
| کرم سے ان کے ہی سب میرا کاروبار چلے |
| ہے ان کی شان جدا سب سے اعلی و ارفع |
| یہی ہیں واللہ جو نبیوں کے تاجدار چلے |
| نگاہ لطف ملے مجھ کو بھی مرے آقا |
| ہے کون جو ترے کوچے سے دل فگار چلے |
| مرے کریم گدا کو بھی اب کریں اپنا |
| کہ اب غلاموں میں تیرے مرا شمار چلے |
| کٹی ہیں انگلیاں جو دیکھا حسن یوسف کو |
| ترے غلام ہیں جو تجھ پہ ہو نثار چلے |
| تمھارے در سے ہے وابستہ عقبی و دنیا |
| وہ بے وقوف ہے جو غیر کے دیار چلے |
| تری نجات کو ذیشان اتنا کافی ہے |
| کہ ان کی یاد میں تم زندگی گزار چلے |
معلومات