لے کے میں جھولی میں ہوں آیا ہوا
عمر بھر میں جو بھی سرمایہ ہوا
اکتسابِ فیض مجھ سے کیجئیے
میں نے بھی ہے عشق فرمایا ہوا
عین ممکن ہے کہ خود سے میں ملوں
آج کل میں خود میں ہوں آیا ہوا
دیکھ کر سیمیں بدن کو جھیل میں
چاند جانے کیوں ہے شرمایا ہوا
پھر رہا تھا در بہ در صحراؤں میں
عشق مجھ تک آگیا اچھا ہوا
جب مِلا موقع یہ پُھر سے اڑ گیا
دل کا پنچھی کب بھلا اپنا ہوا
میں کہاں ہوں "میر" جو یہ کہہ سکوں
" مستند ہے میرا فرمایا ہوا"

0
3