| جو میں نے چھیڑی وفا کی باتیں وہ چھیڑ بیٹھے جہاں کی باتیں |
| ادھر کی باتیں ادھر کی باتیں یہاں کی باتیں وہاں کی باتیں |
| سنائی ہر ایک نے تواتر سے اپنے اپنے گماں کی باتیں |
| کہ میں اور آزُرْدَگی کی باتیں وہ اپنے نام و نشاں کی باتیں |
| نہیں مناسب ہم اہل دل کو غمِ زمانہ سے ہٹ کے سوچیں |
| زمین کی مانگ سونی ہو اور چھیڑیں ہم کہکشاں کی باتیں |
| ملا سکیں تو قدم ملالیں نہیں تو خاموش بیٹھ رہیے |
| جہاں کو اپنی روش پہ لانا ہے کوشِشِ رایگاں کی باتیں |
| مزاج اس کا بدل چکا ہے وفا کے سانچے میں ڈھل چکا ہے |
| یقیں کی حد سے پرے ہی رکھنا یہ ساری حُسْنِ گماں کی باتیں |
| حَقائِقِ وقت کہہ رہے ہیں کسی کا کوئی گلہ نہیں ہے |
| بڑی ہی دلچسپ افزا ہیں شاعِرِ خوش گُماں کی باتیں |
معلومات