ڈھلنے لگتی ہے جونہی شام دیا جاتا ہے |
اذن ملتے ہی سوئے بام دیا جاتا ہے |
میں وہ مزدورِ محبت ہوں ، مقدر کا دھنی |
اپنی مرضی کا جسے کام دیا جاتا ہے |
آخرش ربطِ محبت ہوا انجام بخیر |
جیسے ہر کام کو انجام دیا جاتا ہے |
دل مسلسل چلے جاتا سوے منزلِ خواب |
ہر مسافر کو کب آرام دیا جاتا ہے |
پھاڑ کر پھینکنے والے کو نہیں ہے احساس |
کس مشقت سے وہ پیغام دیا جاتا ہے |
اس پری رو کی سخاوت ہے گزارے لائق |
بعد منت کے کوئی جام دیا جاتا ہے |
پہلے اس کام پہ انعام دیا جاتا تھا |
پارسائی کو اب الزام دیا جاتا ہے |
قربتِ جسم کو کہتے تھے ہوس ماضی میں |
اب اسے پیار کا ہی نام دیا جاتا ہے |
پہلے محدود مواقع تھے میسر آسیؔ |
آج کل پھول سرِ عام دیا جاتا ہے |
قمرآسیؔ |
معلومات