| اس طرح صحنِ شبِ ہجر میں آتا ہوں میں |
| زندگی ناچتی ہے اور نچاتا ہوں میں |
| شام کے آتے ہی یہ راگ اٹھاتا ہوں میں |
| چرخ کی سرخی سے وحشت کا ہو جاتا ہوں میں |
| روز ہر روز یہ ان گنت امیدوں کے بیچ |
| اک ترنم سے ترے رنج کو گاتا ہوں میں |
| ہر طرف گھر میں جمی ہوئی ہے آلام کی گرد |
| ناخنوں سے تری تصویر بناتا ہوں میں |
| اب مجھے شوق ہلاکت ہے سو ہوں طالبِ وصل |
| ورنہ تو رابطوں میں گھاٹے ہی کھاتا ہوں میں |
| دل تسلسل سے کسی سوز میں پُرلطف رہے |
| نہ ملے گر کہیں تو ڈھونڈ کے لاتا ہوں میں |
| اینٹ پر اینٹ نہیں، ریت ہے اور اس پہ یقین |
| کیا تعجب ہے کہ یوں گھر کو بناتا ہوں میں |
معلومات