رابطہ جسم کا جب روح سے کٹ جاتا ہے |
آدمی مختلف حالات میں بٹ جاتا ہے |
دیکھ کر ساحل دریا کا سکوت پیہم |
چڑھ کے آیا ہوا طوفاں بھی پلٹ جاتا ہے |
آئینہ دیکھ کے ہوتا ہے توہم کا اسیر |
قد وہی ہوتا ہے پر آدمی گھٹ جاتا ہے |
کوئی خوشبو غم حالات کو ملتی ہوگی |
سانپ بن کے جو رگ جاں سے لپٹ جاتا ہے |
پھر اسے ملتی نہیں منزل مقصود کبھی |
جادۃ عشق سے اک گام جو ہٹ جاتا ہے |
دل بھی کیا شئے ہے بھلا دیتا ہے سارے مضمون |
اور اک لفظ جو مقصود ہے رٹ جاتا ہے |
ہر نئی صبح کا مضمون نیا ہے شاعر |
ہر نئی صبح کو اک صفحہ پلٹ جاتا ہے |
معلومات