| کھلی ہے جسم کی کھڑکی بھی در بھی |
| خیالِ جاں مرے دل سے گزر بھی |
| میں خود کو ڈھونڈنے نکلوں تو کیسے |
| نکل آتا ہے میرے ساتھ گھر بھی |
| اکیلے کب ہیں ہم لمبے سفر میں |
| ہمارے ساتھ ہے گردِ سفر بھی |
| سکوں اب بھی نہیں کیا مسئلہ ہے! |
| تری آغوش بھی ہے میرا سر بھی |
| یہ بستی کیسی بستی ہے جہاں پر |
| میسر ہی نہیں کوئی بشر بھی |
| تبھی ممکن ہے کوئی آ سمیٹے |
| مرے دل اور تھوڑا سا بکھر بھی |
| بشرطِ زندگی ہو ساتھ تیرے |
| میں لوٹوں گا یہاں بارِ دگر بھی |
| کبھی تو دیکھ ہی لوں گا میں تجھ کو |
| مکمل ہوہی جائے گی نظر بھی |
| وبالِ جان بنتا جا رہا ہے |
| تجھے اے زندگی کرنا بسر بھی |
| رفاقت دو دنوں کی بھولنی تھی |
| مگر لگتا ہے اب جائے گا سر بھی |
| خموشی جان لیوا ہورہی ہے |
| متاعِ جان کوئی بات کر بھی |
| کسی کے وصل کو بھی خاک جانا |
| کسی کے ہجر سے لگتا ہے ڈر بھی |
معلومات