| مجھ پہ ہر شے کی ہے ویرانی کا غم، ہائے ہے |
| آج کیوں دل پر تری یادوں کا ماتم، ہائے ہے |
| ایک تنہائی ہے اور اک بے کسی کا درد ہے |
| یہ تو دوزخ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم، ہائے ہے |
| بزمِ ہستی میں کوئی ہمدم نہیں، غم خوار نہیں |
| صرف اپنے آپ سے ہی اپنا باہم، ہائے ہے |
| دیکھ کر ہر اک کو ہنستا، دل نے پوچھا بارہا |
| اس جہاں میں کیا فقط مجھ کو ہی یہ غم، ہائے ہے؟ |
| رات بھر تارے گنے، سحر ہوئی، پر کیا ملا |
| روز و شب کا بس یہی اب تو ہے موسم، ہائے ہے |
| اک تری یادوں کی بارش ہے کہ رکتی ہی نہیں |
| اور ہر قطرۂ اشک ہے اک آبِ زم زم، ہائے ہے |
| میں تو تنہا رہ گیا، وہ لوگ سب چلتے بنے |
| کیا بتاؤں، کیسا تھا ان کا کرم، ہائے ہے |
| ماتمِ دل پر نہ آوے کوئی بھی، جب تک میں تھا |
| ندیم اب وہ بھی گئے، جو کہ تھے محرم، ہائے ہے |
معلومات