اس قدر زخم ہیں دل پہ ڈر جائے گا
ہاتھ دھیمے لگانا بکھر جائے گا
سر سے اونچا ہے پانی تو کیا ہو گیا
رب نے چاہا تو اک دن اتر جائے گا
درد و غم مشکلیں ساری مہمان ہیں
وقت ہی تو ہے صاحب گزر جائے گا
کون جیتا رہے گا یہاں حشر تک
ہم بھی مر جائیں گے تو بھی مر جائے گا
ہم تو آئے جہاں سے وہیں جائیں گے
مجھ سے لڑ کر بھلا تو کدھر جائے گا
ڈال دل پر نظر اور پھر یہ بتا
کون اپنا ہے تو کس کے گھر جائے گا
چھوڑ کر مجھ کو تو کیوں ہے برباد سا
جاتے جاتے کہا تھا سنور جائے گا
آپ کا درد تو میری میراث ہے
نا خلش جائے گی نا اثر جائے گا
آج بھی ان کی یادوں سے زندہ ہوں میں
میرے دل سے نہ ان کا سحر جائے گا
اپنے ہاتھوں سے خنجر اٹھائیں نہ وہ
مسکرائیں گے وہ کوئی مر جائے گا
معرکہ جب بھی ہو گا کہیں دین کا
سب سے پہلے تو جامی کا سر جائے گا

0
66