زلف کے خم جو نکلتے جائیں
ہیں ادھر دل کہ دھڑکتے جائیں
شہر لاہور کے رستوں پر ہم
آ کسی شام ٹہلتے جائیں
سرد ہے ماہ دسمبر لیکن
مرمریں جسم سلگتے جائیں
زندگی ہے کہ گزرتی جاۓ
اپنے سب خواب بکھرتے جائیں
ریت مٹھی میں لئے بیٹھا ہوں
اور ذرات پھسلتے جائیں
سوچ ہے قید کسی لمحے میں
جسم پر سال گزرتے جائیں
میں ہوں وہ پیڑ کہ جس کے پتے
ایک اک کر کے بچھڑتے جائیں
پیڑ انسان کی زد میں ہیں اب
گھر پرندوں کے اجڑتے جائیں
اے خدا خلد سے میرے پیچھے
تیرے اوتار اترتے جائیں
مضطرب دل کو جلایا ہم نے
کچھ زیاں کار بہلتے جائیں

0
153