بُرے حالات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
نئی آفات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
ابھی دن کا اُجالا ہے ابھی خوشیوں کا میلہ ہے
غموں کی رات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
ابھی احساس ہے زندہ، ابھی سر سبز ہیں سوچیں
خزاں کا پات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
دَرونِ ذات ہے جاری عمل خود کو سمجھنے کا
شَعُورِ ذات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
مرے اشعار ہیں سادہ بناوٹ سے تہی بالکل
انہیں سوغات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
تمہیں ملنا ضروری تھا سو میں خود کو چُرا لایا
اسیرِ ذات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
ابھی روشن ہیں آنکھوں میں دیے امید کے میری
مجھے شہہ مات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی

0
3