میں نے محبت کا اجڑتا ہوا شجردیکھا
خشک چٹختی ہوئی بے جان شاخیں
جو نصیحت تھیں
کئی منتظر پھلوں کی بکھرتی امیدیں
کہر میں چھپ چھپ کہ گرتے بے جان پتے
جن کے لاشے ہوا کی چوٹ سے بکھرتے تھے
وہ نصیحت تھے
زمیں کے سینےسے لپٹ کر
چند سانسوں کی طلبگار گڑ گڑاتی جڑیں
فلک کی جانب ان کی بےآواز آہیں
روز اٹھتی تھیں اک نصیحت تھیں
میں نے مسکراتے ہوئے کرب دیکھے ہیں
اور محبت کی اذیت دیکھی ہے
پھر اس اذیت کی نادیدہ چاہ ۔۔۔۔
وہ چاہ اک نصیحت تھی
اے دوست
اک نصیحت ہے..

39
644
نثر نثر ہوتی ہے نظم نظم - لہازا نثری نظم اصل میں نثر ہی ہوتی ہے۔
یہ میرا نہیں جناب فیض احمد ٖفیض کا کہنا تھا،
قطع نظر اس بات کہ -
آپ نے اس کلام کی اٹھان اچھی کی- آپکی بنت بھی اچھی ہے مگر آپ خیال نبھا نہیں سکیں- محبت اور اجڑتے درخت اور نصیحت میں تعلق واضح نہیں ہو رہا۔ اس میں ابہام ہے
مگر میرے خیال میں اس نظم میں بہت پوٹینشل ہے اگر آپ اسے آزاد نظم بنائیں اور خیال واضح کریں تو یہ ایک اچھی چیز بن سکتی ہے

تبصرے کا شکریہ جناب اگر آپ تصیح کر کے مثال کے طور پر سمجھائیں تو میرے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا

0
دیکھے آزاد نظم بھی بحر کی پابند ہوتی ہے مگر اس میں دریف قافیہ اور مصرعے میں ارکان کی تعداد کی پابندی نہیں ہوتی
سب سے پہلے تو آپ اپنی نظم کی بحر بنائیں
میں آپ کو مثال دیتا ہوں

میں نے محبت کا اجڑتا ہوا شجردیکھا
اس کو یوں ترتیب دیں تو رمل میں آجائیگا
میں نے اجڑا سا محبت کا شجر دیکھا ہے
فاعلن فَعِلاتن فَعِِلاتن فعلن
خشک چٹخی ہوی بے جان سی ویراں شاخیں
فاعلن فَعِلاتن فَعِِلاتن فعلن
کہ نصیحت ہو کوی وہ
فاعلن فَعِلاتن
منتظر ہوں پھلوں کی جوں
فاعلن فَعِلاتن
بکھری بکھری سی امیدیں
فاعلن فَعِلاتن

علی ہٰذایقیاس

امید ہے آپ بات سمجھ گئ ہونگی

محترم جناب ارشد صاحب

آزاد نظم بحر کی پابند نہیں ہوتی صرف ارکان کی پابند ہوتی ہے اگر بحر کی پابند ہو تو ارکان کی تعداد کیوں بدلے؟ بحر تبھی کہلاۓ گی جب ارکان کی تعداد کر مصرعے میں ایک ہی ہو
کم زیادہ ہو جاۓ تو وہ بحر نہیں رہتی فقط ارکان کا وزن رہ جاتا ہے

0
اور جو آپ نے اوپر مثال دی ہے غلط ہے یہ ارکان بحرِ رمل کا مزحف آہنگ بناتے ہیں اور آپ یہ تمام ارکان باری باری استعمال کر رہے ہیں جبکہ آزاد نظم ایک ہی رکن پر ہوتی ہے مثلا اگر فعلن چنا تو مصرعے میں رکن کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہے گی مگر فعلن سے فاعلاتن نہیں کر سکتے


0
سوری سے ایسا نہیں ہے۔ کوئ بھی آہنگ ہو مزاحف یا سالم آپ اس میں کچھ ارکان کو استعمال کر کے مصرعہ بنا سکتے ہیں
آپ منیر نیازی کا کلام ملاحظ کر سکتے ہیں
میں بھی آپ کو کوئ مثال نکال کر بھیجتا ہوں

0
چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
فعْل فعولن فعلن فعلن
دیئے تھے کم اور بہت اندھیرا
فعْل فعولن فعلن فعلن
منیر نیازی
------
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
ساحر لدھیانوی
-------

0
تو ان مثالوں سے پتہ چلا کے آزاد نظم کی بحر مذاحف بھی ہو سکتی ہے
یہ درست ہے کہ اس میں لکھنا مشکل ہے اس لیے آپ کو اکثر کلام ایک ہی رکن کی تکرار نظر آئیگا

اب جب یہ ثابت ہوا کہ اس طرح لکھنا جائز ہے تو پھر آزاد نظم کے قواعد کے اعتبار سے آپ کوئ بھی
مصرعی رکن توڑ کے بھی لکھ سکتے ہیں

0
منیر نیازی
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے کون
میں کہتا ہوں میں
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور

یہ ساری نظم
فعلن فعْل فعولن فعلن فعْل فعولن
کے کم یا زیادہ استعمال سے بنی ہوئ ہے

کیا اب آپ مری بات سے اتفاق کریں گے؟

0
ذیشان صاحب نے بہترین مثالیں دی ہیں - کیسے یہ ن م راشد کی نظم

اے جہاں زاد، ​نشاط اس شبِ بے راہ روی کی​
فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن
میں کہاں تک بھولوں؟​
فاعلاتن فعِ
زور ِ مَے تھا،
فاعلاتن


محترم آپ کو مزید اصنافِ نظم دیکھ لینے چاہیے جس میں نظمِ معرا وغیرا بھی آتی ہے اور سر آزاد نظم کو آپ بحر کا پابند کس طرح کہہ رہے ہیں
میں آپ ہی کی مثال سے سمجھاتا ہوں

اے جہانِ نشاطِ اس شبِ بے راہ روی کی
فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن

یہ مصرع اس بحر پر ہے جب دوسرا مصرع ہم محض دو یا تین ارکان پر لکھیں گےتو سرکار بحر ٹوٹ جاۓ گی اور نظم بحر کی پابند نہیں رہے گی وہ صرف ارکان کے وزن کی پابند ہوگی

ایک اور مثال دیکھیے

میں ایک مصرع لکھتا ہوں
فاعلاتن مفاعلن فعلن

اس بحر پر

اور اگلا مصرع لکھتا ہوں

فاعلاتن مفاعلن

ان ارکان پر

تو مرا لکھا ہوا مصرع

فاعلاتن مفاعلن فعلن
فاعلاتن مفاعلن

کیا بحر کا پابند ہے؟ یا صرف ارکان کا

جس طرح نثری نظم ایک غلط اصطلاح ہے اسی طرح جناب آپ بھی لکھنے میں یہی غلطی کر گئے کہ آزاد نظم کی بھی بحر ہوتی

ا

0
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزاد نظم میں آہنگ یا ردھم کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی بحر کے ارکان لیں اور اسے کم زیادہ کر کے اس میں نظم کہیں۔ اس نظم کو آزاد نظم کہا جائے گا۔

0
آزاد میں یا معریٰ میں رکھا جائے گا بے شک مگر نثری میں محض ردھم اور رابطہ... ہیں ناں؟

0
یا جوں کریں بھائی آپ نثری نظم کا عنوان ہی ختم کر دیں کیونکہ جب بھی کوئی اس کے زیریں لکھے گا سب اسکو آزاد یا معریٰ بنانے پہ تل جائیں گے...

0
سید ذیشان اصغر بھائی میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اس میں صرف ارکان ہوتے ہیں ان کی تعداد کم زیادہ ہوتی ہے اور ایک تسلسل ہوتا ہے لیکن بحر کوئی نہیں ہوتی

جس طرح سے یہ ارشد صاحب باریک باریک چیزیں ڈھونڈتے ہیں تو میں نے ان ہی کی غلطی ہائی لائٹ کی ہے کہ بحر میں ہونا اور وزن میں ہونا دو مختلف چیزیں ہیں
وزن ارکان کا ہوتا ہے چاہے وہ تین ہوں چار ہو یا جتنے بھی ہوں مگر بحر ان ارکان کی ایک خاص ترتیب سے بنتی ہے جس کو مصرعوں میں بدلا نہیں جاتا جبکہ آزاد نظم میں ارکان کی تعدا بدلتی ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد نظم بحر کی پابند نہیں ہوتی

0
سعدیہ محترمہ جس نظم کو آجکل عام طور پر نثری نظم کہتے ہیں وہ دراصل آزاد نظم ہی ہوتی ہے اور آزاد نظم ارکان کی پابند ہوتی
اور اسے نثری نظم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے میں نثر لگتی ہے جبکہ وہ نثر ہوتی نہیں ہے

0
اسامہ صاحب میں آپ کا نقطہ نظر سمجھ گیا۔ آپ اصل میں بحر کے رکن ٹوٹنے کو اسکا بحر میں نہ ہونا کہ رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ یہ وزن میں ہے مگر بحر میں نہیں تو سر یہ آپ کا اپنا نقطہ نظر ہے علامہ عروض کا نہیں ۔
اسی سائٹ پر آسی صاحب کی کتاب پڑی ہے اسے دیکھ لیں

بات یہ ہے کہ آزاد نظم بلکل بحر کی پابند ہوتی ہے مگر آپ بحر کے ارکان کو توڑ موڑ سکتے ہیں مگر وہ ہوں گے اس بحر کے ہی۔
ایک مصرع آپ فاعلتن سے شروع کریں تو دوسرا مفاعلن سے نہیں کر سکتے۔

اسی بات کو آپ کہیں بحر بدل گئ ہے مگر وزن میں ہے تو یہ آپکی مرضی ہوگی۔ آگر آپ نے کبھی آزاد نظم کہی ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اگر آپ کے سامنے اصل بحر نہ ہو تو آپ اگلا مصرعہ لکھ ہی نہیں سکتے

مگر خیر اصل میں تو آپ میری غلطی نکللنا چاہتے تھے کیوںکہ آپ نے لکھا" جسطرح یہ ارشد صاحب "
میں سمجھ گیا۔ آئندہ لوگو کے کلام پہ کمنٹ میں احتیاط کروں گا باریک باریک بات نہیں نکالوں گا۔

مگر آخر میں یہی کہوں گا کہ آزاد ںظم بحر میں نہیں ہوتی یہ محض آپکا خیال ہے ۔ بنیادی بحر وہی ہوتی ہے اس میں ارکان کم زیادہ کر سکتے ہیں اور عروض کی کتابیں ایسا ہی کہتی ہیں۔ آگے آپ کی مرضی

0
میں اس معاملے میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا اگر آپ کو وقت ملے تو ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کی کتاب پڑھ لیجیے گا اور ابراہیم ذوقؔ کے نظریات کا بھی جائزہ لیجیے گا
میں آپ سے بالکل اتفاق نہیں کرتا

0
https://hamariweb.com/articles/39074


آزاد نظم میں قدیم عروضی اصولوں سے بغاوت ہے۔اور نئے فطری آہنگ کی تعمیر ہے۔ انگریزی میں آزاد نظم لکھنے کے لئے ارکان کی ترتیب کے قدیم اصولوں کو خیر باد کہا گیا۔ اور آواز کے اتار چڑھاﺅ پر زور دیا گیا۔ لیکن اردو میں آزاد نظم بحر سے تو آزاد ہوگئی لیکن وزن سے آزاد نہیں ہوسکی۔ اور کسی نہ کسی بحر کے ارکان کی مختلف ترتیب سے آزاد نظم تشکیل پائی۔



باقی حصہ اوپر لنک میں موجود ہے پڑھ لیجیے گا اور مزید بھی ریفرنس چاہیے ہو تو ضرور بتائیے گا محترم

0
حضرت اتمامِ حجت کے لئے آخری بار اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں
دیکھیئے اس بات پر تو ہم متفق ہیں کہ آزاد نظم وزن میں ہوتی ہے اسے بحر کہیں یا نہ کہیں یہ اختلافی امر ہے
میرے پاس بھی ایسی بہت سی کتابیں ہیں جن میں اسکو بحر میں کہا گیا ہے - آئے اس پر آخری بار غور کریں

فرض کیجیے کہ آزاد نظم کا پہلا مصرع ہے
فاعلن فعِلاتن فعِلاتن فعلن
اب یہ نہین ہو سکتا کہ اگلا مصرع ہو
مفاعلن فعلاتن
یعنی شاعر کو ہر حال میں اگلا مصرعہ فاعلن فعِلاتن فعِلاتن فعلن ہی کی کوئ شکل میں لکھنا ہو گا
فاعلن فعِلاتن یا فاعلن فعِ وغیرہ یعنی وہ اپنی بحر کے ارکان کا اب بھی پابند ہوگا
اسی کو میں کچھ لوگ کہیں گے یہ بحر ہے اس ںطم کی اور کچھ لوگ کہیں گے یہ وزن ہے بحر نہیں

یہ آپ پر ہے آپ اس کیا کہیں مگر یاد رکھیں اگر آپ اسے بحر نہیں مانیں گے تو درسرا مصرعہ لکھنے کے لیۓ آپ کو پتہ ہی نہیٰں چلے گا کہ کیسے لکھنا ہے یعنی آپ کو گھوم پھر کر اپنی پہلے مصرعے کی بحر کو پیشِ نظر رکھنا ہی ہوگا
اب آپکی مرضی ہے اسے بحر کہیں یا نہ کہیں

0
اور ہاں جناب آپ نے خود یہ بھیجا ہے
" لیکن اردو میں آزاد نظم بحر سے تو آزاد ہوگئی لیکن وزن سے آزاد نہیں ہوسکی۔ اور کسی نہ کسی بحر کے ارکان کی مختلف ترتیب سے آزاد نظم تشکیل پائی۔"

ایک طرف تو یہ جملہ کہتا ہے " آزاد نظم بحر سے تو آزاد ہوگئی" اور دوسری طرف کہتا ہے " کسی نہ کسی بحر کے ارکان کی مختلف ترتیب سے آزاد نظم تشکیل پائ"

سہیل وڑائچ کے انداز میں
کیا یہ کھلا تضاد نہیں !! :)

0
یا اﷲ... ???

0
ذیشان بھائی ڈیلیٹ کیسے کرتے ہیں؟

0
سعدیہ صاحبہ - میں آپکے اس یا اللہ اور اموجیز کا مطلب نہیں سمجھا
آپ ہی کے کلام کے حوالے سے میں اور اسامہ صاحب ایک علمی بحث کر رہے تھے۔
نہ اسامہ صاحب نے کوئ غلط بات کی نہ میں نے اور یہ ساری گفتگو بھی مہذب انداز میں ہوئ۔
پھر بھی آپ کو برا لگا تو میری معذرت قبول کیجہۓ
میں اب اس ضمن میں کچھ نہیں کہونگا۔

شکریہ

ارے اللہ کے بندے میں یہی کہہ رہا ہوں کہ آزاد نظم بحر پر نہیں بحر کے ارکان پر ہوتی ہے جن کی تعداد بدل جاتی ہے بحر ٹوٹ جاتی ہے مگر ارکان سلامت رہتے ہیں

اور آپ کو یہ پوانٹ کیوں نہیں سمجھ آ رہا؟
دیکھیں بات نظریے کی نہیں ہے عقل یہی کہتی ہے کہ اگر ارکان کی تعداد کم زیادہ ہو تو بحر ٹوٹ جاتی ہے اور میں بھی پچھلے کئی گھنٹوں سے بتانے کی کوشش کر رہا ہوں یہی بات لیکن اب جا کہ آپ تھوڑا سا پوانٹ کیچ کیے ہیں

میں نے اوپر یہ مثال بھی دی تھی
کہ اگر

فاعلاتن مفاعلن فعلن

پہلا مصرع اس پر ہو

اور دوسرا

فاعلاتن مفاعلن

تو یہ صرف ارکان رہ جائیں گے بحر سلامت نہیں رہے گی گو یہ اسی بحر کے ارکان ہیں مگر مقصود یہ ہے کہ بحر سلامت نہیں رہے گی آپ یہ بات سمجھنے جی کوشش ہی نہیں کر رہے

اور جو بحر کی تعریف ہے اس کے مطابق عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ ارکان کم زیادہ ہوں تو بحر سلامت رہتی گو ارکان اسی بحر کے ہوں

ارے اللہ کے
بندے

اگر

فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن
اب یہاں فعلن کو اٹھا کے شروع میں لے آؤں اور فاعلاتن کو آخر پہ تو یہ بحر نہیں رہے گی گو ارکان اسی بحر کے ہیں

0
سعدیہ صاحبہ مری بھی بحث قبول کیجیے مگر ہم علمی بحث ہی کر رہے ہیں ارشد صاحب نے درست کہا

محترم جناب

بحر ایک خاص ترتیب سے ہی برقرار رہتی ہے وہ ترتیب ٹوٹ جاۓ تو وہ بحر نہیں رہتی بھائی بیشک ارکان اسی بحر کے ہوں
مثلا
آپ نے کہا
کہ اگر کوئی مصرع
فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن پر ہو تو دوسرا مصرع

فاعلاتن فعلن پر ہو
تو یہ بحر کہلاۓ گی

جبکہ یہ بالکل غلط ہے پہلے مصرع میں حشوین تھے دوسرے میں نہیں ہیں تو یہ بحر ٹوٹ گئی مگر ارکان وہی ہیں

اگر آپ فعلن فاعلاتن پر دوسرا مصرع لکھیں تو بھی بحر ٹوٹ جاۓ گی کیونکہ
فعلن محذوف ہے جو عروض اور ضرب کے لیے خاص ہے

مرے خیال میں آپ سمجھ گئے ہوں گے مرا کیا نظریہ ہے؟

0
سر نہ آپ مری بات سمجھ رہے ہیں نہ میں آپ کی
اس بحث کو یہیں تک رہنے دیں

0
چلیں اس بحث کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن تبصروں پہ ملتے رہیں گے انشااللہ اچھی بنے گی

0
محترم صاحبان.. اگرچہ آپ میری بات سے اتفاق نہیں کریں گے مگر بحث علمی ہو یا غیر علمی تیسرے بندے کو بیزار کرتی ہے. خاص جب اس کے مطلب کی بات ہی نہ ہو تو..
مختصر اور جامع بات با اثر ہوتی ہے اور قاری کی سمجھ میں آتی ہے مگر یہاں جو بھی بحث ہوئی ابھی تک جاری ہے.. مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میری وجہ سے آپ حضرات کو اتنی طویل بحث کرنی پڑی

0
سبحان اللہ - تیسرا بندہ ؟
آپ ہی کے کلام پر بحث ہو رہی تھی آپ تیسرا بندہ کیسے ہوئیں؟
ہم دونوں آپ ہی کی مدد کر رہے تھے کہ آپ اپنی نظم کو کیسے بہتر کر سکتی ہیں
اور یہ بھی خوب کہا کہ "جب اس کے مطلب کی بات نہ ہو رہی ہو"
یہ باتیں آپ کے مطلب کی نہیں تھیں تو کیوں کہا تھا رہنمائ فرما دیں

اسامہ صاحب میں اور آپ بیگانی شادی میں عبدللہ دیوانے تھے

محترمہ اس عزت افزئ کا شکریہ آئندہ کم از کم میں آپکو تنگ نہیں کروں گا۔

ہاہاہاہا

ارشد آپ درست فرما رہے ہیں
میں بھی ان کو تنگ نہیں کروں گا اب مجھے لگا تھا یہ بحث ان کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی

آپ برا مت منائیں میں واضح کر دیتی ہوں
میرا سوال یہ نہیں تھا آزاد نظم کیا ہوتی ہے
نثری نظم کی آپشن موجود تھی جس کے تحت نصیحت شائع کر دی
اسکو آزاد یا معریٰ نہیں کہا
آپ حضرات نثری کے نیچے آزاد سمجھا رہے ہیں
بتائیں یہ کھلا تضاد نہیں

0
آپ دونوں کو کھلے دل سے خوش آمدید ہے جناب مگر میری درخواست پر غور بھی تو کریں

0
میں نے "التجا " بھی اپلوڈ کی ہے اور ایک غزل بھی اگر مناسب سمجھیں تو غور فرمائیں

0
سعدیہ محترمہ جس نظم کو آجکل عام طور پر نثری نظم کہتے ہیں وہ دراصل آزاد نظم ہی ہوتی ہے اور آزاد نظم ارکان کی پابند ہوتی
اور اسے نثری نظم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے میں نثر لگتی ہے جبکہ وہ نثر ہوتی نہیں ہے


اسامہ آپ نے تو نثر کو آزاد میں ضم کر دیا حالانکہ اسکا اپنا علیحدہ جیتا جاگتا وجود ہے.

0
ارے
میں یہ کہہ رہا تھا کہ آزاد نظم کو ہی لوگ نثری نظم کہنا شروع کر دیتے ہیں
آپ بات کو نہیں سمجھیں
جیسا کہ ارشد صاحب نے کہا تھا کہ نظم نظم ہوتی ہے اور نثر نثر
اس بات سے متفق ہوں میں

0
وہ کہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے آپ تو رکھتے ہیں آپ تو نہ کہیں مجھ جیسے لاعلم کہیں تو سمجھ آتی ہے آپ سے توقع نہیں کی جا سکتی..
جی ہاں نظم نظم ہوتی ہے اور نثر نثر مگر ادب کی زمین اتنی تنگ نہیں کہ دقیانوسی دکھانی پڑے نئے تجربات کو پورا حق ملتا ہے اگر وہ ادب کی روح کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں.
نثری نظم نثر اور نظم کا خوبصورت ملاپ ہے جسے فقط بہترین الفاظ کے چناؤ سے خیالات کی گہرائی سے جذبات کی ترجمانی کیلئے سینچا جاتا ہے نا کہ سطحی سوچ دقیق زخیرہ الفاظ سے...

0
قابل احترام صاحبان... آپ نے مجھ ناچیز کی نثری نظم پر جو علمی مباحثہ کیا ہے بقول آپ کے میرے علم میں اضافہ کیلیے کیا ہے اور آخری لفظ تک آپ کا اتفاق رائے نہیں تھا تو بتائیں ایک لا علم اس سے کیا حاصل کرے... مگر حیرت انگیز طور پر "آپ سمجھی نہیں" پر دونوں کا اتفاق ہے..
یہ کھلم کھلا تضاد نہیں؟؟؟

0