| تو جانِ زہرا تو نورِ حیدر، ہے نانا خیر الانام تیرا |
| ولی جہاں کے اے وارثِ کل، ادب سے لیتے ہیں نام تیرا |
| کرو محبت یہی ہے سب کچھ، اسی سے کامل ہے دین و ایماں |
| جہان بھر میں ہے اس کی شہرت، ہے کتنا دلکش پیام تیرا |
| اُسے بشارت ہے دو جہاں میں، ہے تھاما جِس نے تمہارا دامن |
| وہ واقفِ سرِّ حق ہُوا ہے، پِیا ہے جس نے بھی جام تیرا |
| تری ضیا سے چمکتا سورج، تجھی سے روشن یہ ماہ و انجم |
| جو دیکھے تجھ کو بھُلا دے خود کو، ہے ایسا حُسنِ تمام تیرا |
| نہ پیر تم سا کوئی جہاں میں، نہ تم سا رہبر کسی نے دیکھا |
| نبھایا تم نے ہے ہر کسی کو ، ہے جاری فیضِ دوام تیرا |
| تو نورِ حق کا مثالی ہیکر، نبی کی سیرت کا عین مظہر |
| تو وارثِ پنجتن ہے مولا، بہت بڑا ہے مقام تیرا |
| میں تیرے در سے نہیں ہٹوں گا، یہ قبلہ میرا یہ میرا کعبہ |
| یہیں جیوں گا یہیں مروں گا، میں بنده تیرا غلام تیرا |
| کرم کی مجھ پر نگاہ کر دو، مرا مقدر سنوار ڈالو |
| اے میرے مُرشد اے میرے مولا، بنانا بگڑی ہے کام تیرا |
| حَسین سارے جمیل سارے، تمہی پہ قرباں تمہی پہ شیدا |
| ہے کہکشاؤں کے بیچ روشن، اے جاناں ماہِ تمام تیرا |
| تمہاری نسبت سے اس جہاں میں، پکارا جاتا ہوں وارثی میں |
| بروزِ محشر بھی یہ کرم ہو، کہیں مجھے سب غلام تیرا |
| یہ نام لیوا تمہارے صدقے، رہے عنایت یہ اُس گھڑی بھی |
| کہ جب اٹھوں میں لحد سے اپنی، زباں پہ جاری ہو نام تیرا |
| طفیلِ بیدم شہا عطا ہو، *اثر* کو حُسنِ بیاں کی دولت |
| رچا بسا ہو سخن میں اِس کی، کلام تیرا پیام تیرا |
معلومات