| وہی ہے دل جو مگر اب ٹھہرتا نہیں ہے |
| عجیب رستہ ہے کوئی گزرتا نہیں ہے |
| تمام عمر اسی راہ میں رہی ہے مری |
| جہاں پہ سایۂ دیوار ملتا نہیں ہے |
| جو تجھ سے بچھڑیں تو یہ بے بسی بھی دیکھیں گے |
| کہ کوئی دوسرا اس طور برتا نہیں ہے |
| یہی سچائی ہے اپنی کہ ہم نے جان لیا |
| کوئی کسی کا بھلا سوچتا ہی نہیں ہے |
| بہت سی آنکھیں ہیں جو راستے پہ رہتی ہیں |
| مگر کوئی بھی ستارہ چمکتا نہیں ہے |
| جو تم کو سوچ کے ہم نے کبھی قدم رکھّا |
| تو آج تک بھی یہ رستہ بدلتا نہیں ہے |
| میں ایسے غم کو بھی سینے میں رکھّتا ہوں |
| جسے کہ کھول کے کوئی سناتا نہیں ہے |
| ندیم اُس کو بُلایا ہے میں نے بارہاں |
| مگر وہ شخص کبھی بھی پلٹتا نہیں ہے |
معلومات