| شہر میں اک لاشہ سے یوں ٹکرا گیا |
| کہتا میَں زندہ ہوں کوئی دفنا گیا |
| غسل دے اشکوں سے ارمانوں کے مجھے |
| یادوں کے سندر کفن میں کفنا گیا |
| خواہشوں کے کندھوں پے نکلی نعش جو |
| مٹی میں حالات کی وہ دفنا گیا |
| چھوڑ کر مجھکو وہ زندوں کے شہر میں |
| بے وفا یوں سب حقیقت بتا گیا |
| وہ جو کہتا تھا کے تم جاں بس میری ہو |
| چھوڑ کر میت یوں عشق کی چلا گیا |
| یہ جو سوکھے پھول بِچھے ہیں قبر پر |
| وہ یہ وعدے قول و قسمیں لوٹا گیا |
| جی رہے تھے ہم تو شہرِ مردار میں |
| اُس کا بس اک لمس مرنا سیکھا گیا |
| گر ملے تو پُوچھنا اُس عیار سے |
| وہ محبت تھی ؟ یاں سپنا دیکھا گیا |
| ابھی غوری |
معلومات