شہر میں اک لاشہ سے یوں ٹکرا گیا
کہتا میَں زندہ ہوں کوئی دفنا گیا
غسل دے اشکوں سے ارمانوں کے مجھے
یادوں کے سندر کفن میں کفنا گیا
خواہشوں کے کندھوں پے نکلی نعش جو
مٹی میں حالات کی وہ دفنا گیا
چھوڑ کر مجھکو وہ زندوں کے شہر میں
بے وفا یوں سب حقیقت بتا گیا
وہ جو کہتا تھا کے تم جاں بس میری ہو
چھوڑ کر میت یوں عشق کی چلا گیا
یہ جو سوکھے پھول بِچھے ہیں قبر پر
وہ یہ وعدے قول و قسمیں لوٹا گیا
جی رہے تھے ہم تو شہرِ مردار میں
اُس کا بس اک لمس مرنا سیکھا گیا
گر ملے تو پُوچھنا اُس عیار سے
وہ محبت تھی ؟ یاں سپنا دیکھا گیا
ابھی غوری

202