ہے کرم تیرا ، مہرباں ہے تو
تو صدا دل کی ، سر گراں ہے تو
گل کی خوشبو ، بہار گلشن کی
عرش کا پھیلا ، اک دھواں ہے تو
مجھ پہ کھولے جو در عقیدت کا
اک وفا کا وہ ، امتحاں ہے تو
خوف جس کو نہیں زمانے کا
وہ زمیں میری ، آسماں ہے تو
ماہ و انجم درخشاں ہیں ، رستے
کہکشاں سب کے درمیاں ہے تو
جستجو زندہ ہے سدا جس سے
قافلہ دل کا وہ رواں ہے تو
سوچ کے ملتا ہے سکوں شاہد
غم جہاں کی جو اک اماں ہے تو

46