نظم : بے بس عورت |
آج میں گزرا ایک چوراہے سے جب |
آنکھوں میں ایک چبھن سی ہوئی |
ذرا گھوم کے دیکھا غور سے تو |
بڑا دلخراش منظر تھا |
کھڑی تھی ایک بے بس عورت |
دکاندار بھی تھے موجود وہاں |
مگر چند اور بھی تماشائی تھے |
وہ عورت کچھ پیسوں کی خاطر |
سراپا سوالی بن گئی تھی |
اور لوگ دلوں کو دے کے ہوا |
مسلسل اس کو تکتے رہے |
دکاندار وہاں کے بے حس تھے |
کچھ کام نہ آئے عورت کے |
کہیں اور جانے کا سب نے کہا |
وہ عورت صبر کا تھی پہاڑ |
اپنے آنسو کو روک کر اس نے |
رہ گیروں کو مدد کا کہنے لگی |
مگر افسوس کہ سبھی پتھر دل |
اس مجبور کو طعنے دیتے رہے |
وہ بے بسی کے عالم میں |
سرد آہ بھر کر کہنے لگی |
میں اگر جسم فروشی کرتی تو |
یہ سبھی مرد پجاری ہوتے تب |
لیکن میرے خالق سن لے |
آج بھی صبر ہے فاقے پر |
میں نے جب سارا یہ منظر دیکھا |
خود سے کہنے لگا میں اے عباسؔ |
یہ کن جانوروں کی بستی ہے |
یہاں انسانیت اتنی سستی ہے؟ |
پھر دل میں خیال آیا اس عورت کا |
سوچا کہ اس کی مدد کروں |
لیکن نہ جانے پل بھر میں |
وہ صبر کی پیکر کہاں چلی |
معلومات