مزدور جب اٹھے تو بستر کرے شکایت
ٹوٹا ہوا بدن بھی رو کر کرے شکایت
ڈھوتے چلو گے کب تک تم بوجھ اس طرح سے
ننگے قدم کے چھالے پھٹ کر کرے شکایت
گل ہی کو گل نہ مانے گلشن کے اب محافظ
گلشن میں آج ہر گل اکثر کرے شکایتآ
اہلِ نظر نہیں کیا ل اہلِ چمن میں کوئی
شام و سحر چمن کا منظر کرے شکایت
پرواز کرتے کرتے پرواز تھک گئی کیا
منزل دکھے نہیں بال و پر کرے شکایت
وعدے ہزار کر کے وعدہ نہیں نبھایا
وعدے اسی کے اب تو گھر گھر کرے شکایت
نکلو نہ اس گھڑی تم دیکھو ذرا طبیعت
لختِ جگر کے لعل و گوہر کرے شکایت
بپھرے وہ تشنگی سے خاموش خود ہو جائے
کس سے بھلا سمندر جا کر کرے شکایت
رشتوں کے خوف سے رہتی تھی نظر جو چھپ کر
اب تو وہی نظر کیوں کھل کر کرے شکایت

0
29